یڈروجن پلانٹ اور پاکستان میں آئل ریفائنریاں؟ (آخری حصہ)

یڈروجن پلانٹ اور پاکستان میں آئل ریفائنریاں؟ (آخری حصہ)

آج سے ڈیڑھ دو سو سال پہلے انسان نے جو صنعتی ترقی شروع کی۔ اس دوران کارخانے لگے، نت نئے کیمیائی اجزاء بنائے گئے۔ چمنیوں سے دھواں اڑا۔ شرح اموات کم ہوتی گئی اور آبادی بڑھنے سے کسان پر زیادہ فصل اگانے کے لئے دباؤ بڑھا۔ جس کے نتیجے میں نت نئی کیمیائی کھاد اور جراثیم کش ادویات بازار میں آتی گئیں۔ 1970 کے آس پاس سائنس دانوں کو پہلی بار علم ہوا کہ ٹھنڈک پیدا کرنے والی مشینوں میں بکثرت استعمال ہونے والی فریان گیس فضا میں جاکر زمین کے گرد موجود اوزون کے حفاظتی غلاف کو تباہ کر رہی ہے۔ اور نمک کا تیزاب بنا کر سمندر میں پانی کی سطح اور تیزابیت میں اضافہ کر رہی ہیں۔ سائنس دانوں کو اس مسئلہ کا حل نکالنے میں دو دہائیاں لگ گئیں۔ اور یوں ایسی گیسیں اب ڈیپ فریزر، ائر کنڈیشنر اور فرج میں استعمال ہونے لگیں جن میں کلورین بہت کم اور فلورین زیادہ استعمال ہو رہی تھی۔

”وائی ٹو کے“ کا شور جنوری 2000 میں تھما تو سائنس دانوں نے جانا کہ متعدد گیسیں جو زمین سے فضا میں جا رہی ہیں وہ وہاں جاکر ختم نہیں ہو جاتیں بلکہ دن بھر میں سورج کی شعاعوں سے دھوپ کو جذب کرتی ہیں (یوں زمین پر دن میں کم دھوپ کی تپش آتی ہے ) ۔ بعد میں رات کو یہی گیسیں زمین ٹھنڈا ہونے کی وجہ سے دن بھر میں ذخیرہ کی گئی گرمی کو زمین کی طرف منتقل کر رہی ہیں۔ ان گیسوں کو ”گرین ہاؤس گیسیں“ کہا گیا۔ اور یہ موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے نقصان دہ اصطلاح ہے۔

ان نقصان دہ گیسوں کی وجہ سے نہ صرف گلیشیئرز کے پگھلنے کی رفتار بڑھ گئی بلکہ سمندر کے پانی کی سطح اور درجہ حرارت بھی بڑھ رہا ہے جو آبی حیات کو نقصان پہنچا رہا ہے۔